روشنی کی رفتاراور توانائی پر ایک نظر

ہمارے طلبہ جانتے ہیں کہ فوٹان الیکٹرومیگانیٹک ویوز کا بنیادی ذرّہ ہے۔ روشنی بھی الیکٹرومیگانیٹک ویو ہی ہے۔ فوٹان ایک ماس لیس ذرّہ ہے۔ ماس لیس ذرّہ سے مراد یہ ہے کہ فوٹان کا ماس (کمیت) نہیں ہوتا۔ کلاسیکل تعریف کی رُو سے ماس کسی جسم میں مادے کی مقدار کو کہتے ہیں۔ چنانچہ فوٹان میں مادے کی کوئی مقدار نہیں ہوتی۔ یہ بات خاصی سادہ اور عام فہم ہے۔ وہ اس لیے کہ اتنا تو ایک اَن پڑھ شخص بھی جانتاہے کہ روشنی کا کوئی ماس نہیں ہوتا بالفاظ ِ دیگر روشنی مادہ نہیں ہے۔

یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ ایک فوٹان میں مومینٹم ہوتاہے۔ لیکن ابتدائی فزکس کے طلبہ کے لیے یہ سوال ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہتا ہے کہ جب ایک فوٹان کا ماس نہیں ہوتا تو پھر اُس کا مومینٹم کیسے ممکن ہے؟

مومینٹم کسے کہتے ہیں؟ عام قاری کے لیے عرض کیے دیتاہوں کہ جب ہم بلیئرڈ کی گیندوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں تو فطرت کا ایک مظہر ہمیں صاف نظر آتاہے اور وہ یہ کہ بلئڑد کی ایک گیند جب دوسری گیند سے ٹکراتی ہے تو اپنی توانائی کا کچھ حصہ اُس گیند میں منتقل کردیتی ہے جس کے ساتھ ٹکرائی ہے۔ بعض اوقات تو یوں بھی ہوتاہے کہ اپنی ساری کی ساری توانائی اُس گیند میں منتقل کردیتی ہے جس کے ساتھ ٹکرائی ہے۔ ایسی صورت میں ٹکرانے والی گیند وہیں کی وہیں رک جاتی ہے اور جس کے ساتھ ٹکراتی ہے وہ گیند پوری طاقت کے ساتھ آگے کو چل پڑتی ہے۔ سو یہ ہوتاہے مومینٹم جو ایک گیند سے دوسری میں منتقل ہوا۔

سائنس کے طلبہ جانتے ہیں کہ مومینٹم ہمیشہ مادی اجسام میں ہوتاہے۔ یعنی جس شئے میں مادہ ہوگا اس میں مومینٹم ہوگا۔ ٹھوس، مائع، گیس وغیرہ سے بنی ہوئی چیزوں میں مومینٹم ہوتاہے۔ روشنی کی شعاع کوئی مادی جسم نہیں رکھتی۔ تو پھر روشنی کے ذرّے فوٹان میں مومینٹم کیسے ممکن ہے؟

اگر ہم فزکس کی مساواتوں پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوتاہے کہ مومینٹم کے لیے طے شدہ مساوات
p=mv
یعنی مومینٹم برابر ہے ماس ضرب ولاسٹی ہے۔ کیونکہ اِس مساوات میں پی مومینٹم ہے۔ اور اس مساوات سے بھی یہی ثابت ہوتاہے کہ کسی شئے میں مومینٹم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس شئے میں دو چیزیں ہوں۔ نمبرایک ماس ، نمبر دو ولاسٹی۔ جبکہ روشنی کی شعاع میں، اِن میں سے صرف ایک چیز ہے یعنی کہ ولاسٹی۔ ہم جانتے ہیں کہ روشنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ سو ولاسٹی کا ہمیں پتہ ہے۔ جبکہ ماس کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ روشنی کے ذرّات چونکہ مادی نہیں ہیں اس لیے اُن میں ماس کا ہونا ناممکن ہے۔ تو پھر روشنی کے ذرّات میں مومینٹم کہاں سے آگیا؟

اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ روشنی کے ذرّے میں توانائی ہوتی ہے ؟ تو ہم جھٹ سے جواب دیتے ہیں کہ ہاں۔ روشنی خود توانائی ہے۔ اسے الیکٹرومیگانیٹک فورس کہتے ہیں۔ اگر ہم سے کوئی دوبارہ سوال کرے کہ روشنی کے ایک ذرّے میں موجود توانائی کی مقدار معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو ہم اُسے ایک خالص سائنسی جواب دے سکتے ہیں۔ کیونکہ سوال کرنے والا نہایت باریک شئے (روشنی کے ذرّے) کے بارے میں سوال کررہاہے۔ ہم ایک فارمولے کے تحت جواب دے سکتے ہیں اور وہ فارمولا ہے،

E=hf
یہ روشنی کے ذرّے کی توانائی کی مقدار معلوم کرنے کا فارمولا ہے۔ اس میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف تو توانائی ہے جبکہ دوسری طرف ایچ اور ایف لکھاہواہے۔ ایچ سے مُراد ہے باریک سے باریک سے باریک سے باریک ایکشن، جسے ایک سائنسدان پلانک نے سب سے پہلے طے کیا تھا کہ باریک سے باریک سے باریک سے باریک ایکشن کتنا ہو تو ہم ریاضیاتی طور پر اُسے اپنے احاطۂ ادراک میں لاسکتے ہیں۔ اِسی طرح باریک سے باریک سے باریک لمبائی بھی پلانک نے ہی دریافت کی جسے پلانکین لینتھ کہتے ہیں۔ِ ایچ پلانکین ایکشن ہے۔ جبکہ ایف (f) روشنی کے ذرّے کی وائبریشن کی فریکوئنسی ہے۔

چنانچہ ہم اِس فارمولا کے ذریعے روشنی کے ایک ذرّے میں موجود توانائی کی مقدار کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ اب اگر ہم آئن سٹائن کی مشہور مساوات

E=mc2

یعنی ’’ای اِز اِکوَل ٹُو ایم سی سکوئرڈ‘‘ پر غورکریں تو ہمیں نظر آرہاہے کہ اس میں بھی توانائی یعنی ای ایک طرف ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایم برائے ماس اور سی سکوئرڈ برائے روشنی کی ولاسٹی کا مربع ہے۔ ہم سابقہ مساوات کو اِس مساوات کے ساتھ جوڑ بھی سکتے ہیں، کیونکہ دونوں طرف ای لکھاہواہے۔ اگر ہم ای کو ہٹا دیں تو دونوں مساواتوں کی رائٹ سائیڈ کی علامتوں کو ایک دوسرے کے مقابل لکھ سکتے ہیں، یعنی کہ ایسے

mc2=hf

ریاضی جاننے والے لوگ آسانی کے ساتھ اس مساوات میں ایک طرف صرف ایم (m) کو چھوڑ کر دوسری طرف باقی اجزأ کو لکھ سکتے ہیں۔ اور یوں ہمیں بالآخر پتہ چلتاہے کہ روشنی جس کا کوئی ماس نہیں ہوتا لیکن اِس فارمولے کی رُو سے ایک تھیوریٹکل ماس کی حامل ہے۔ روشنی کا ہر ذرّہ اِسی طرح ایک قسم کے تھیوریٹکل ماس کا حامل ہے۔

فلہذا یہ سوال کہ روشنی کے ایک ذرّے کا مومینٹم کیونکر ہوتاہے جبکہ اس کا ماس ناممکن ہے، اس طرح حل کیا جاتاہے کہ روشنی کے ذرّے کا یہی تھیوریٹکل ماس مومینٹم کی مساوات

p=mv
میں لکھا جاتاہے۔ یعنی ایک طرف مومینٹم پی ہوگا جبکہ دوسری طرف ماس کی جگہ وہ ویلیو آئے گی جو ہم نے پچھلی دو مساواتوں سے حاصل کی اور آخر میں اس ویلیو کو صرف وی (v) کے ساتھ ضرب دیا جائےگا۔

اب مزید باریکی میں جانے کی بجائے میں چاہونگا کہ اصل مدعا کی طرف آؤں۔ اصل مدعا یہ ہے،

اگر روشنی کے ذرّے کا مومینٹم ہوتاہے تو پھر روشنی کے ذرّات کو بھی بلئرڈ کی گیندوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ یا اپنے جیسے دیگر باریک ذرّات کے ساتھ ٹکرانا چاہیے۔ روشنی کے ذرّات کو بھی بلئرڈ کی گیندوں کی طرح اپنا مومینٹم دوسرے ذرّات میں منتقل کرنا چاہیے۔

اس کا جواب ہے کہ ہاں۔ روشنی کے ذرّات جب دیگر ذرّات کے ساتھ ٹکراتے ہیں تو ان کا مومینٹم بھی بالکل بلئرڈ کی گیندوں کی طرح سے کام کرتاہے۔ فرض کریں بلیئڑد کا ایک ٹیبل ہے جس پر ایک کھلاڑی کی گیندیں تو روشنی کے ذرّات یعنی فوٹانز ہیں جبکہ دوسرے کھلاڑی کی گیندیں الیکٹرانز ہیں جو کسی بھی ایٹم کے نیوکلیس کے گرد گردش کرنے والے عام مشہور ذرّات ہیں۔ اب کیا ہوگا کہ روشنی کے ذرّات جب الیکٹرانوں کے ساتھ ٹکرائیں گے تو اپنا مومینٹم اُن میں منتقل کردینگے یا ایسا بھی ہوسکتاہے کہ اُن کا مومینٹم روشنی کے ذرّات میں در آئے گا۔

یہ وہ مقام ہے جہاں سب سے دلچسپ صورتحال ہے۔ ہم جانتےہیں کہ بلیئرڈ کی گیندیں جب آپس میں ٹکراتی ہیں تو کبھی ٹکرانے والی گیند خود رفتار میں سلو (آہستہ) ہوجاتی ہے اور جس کے ساتھ ٹکرائی ہے وہ گیند رفتار میں تیز ہوجاتی ہے۔ اِسی طرح کبھی کوئی اور زیادہ تیزی سے آتی ہوئی گیند ایک آہستگی سے جاتی ہوئی گیند میں اپنا مومینٹم منتقل کردیتی ہے اور خود سلو ہوجاتی ہے۔ تو کیا فوٹانز کے ساتھ بھی ایسا ہوتاہے؟ کیا روشنی کے ذرّات جب الیکٹرانوں سے ٹکراتے ہیں تو ان کی رفتار بھی آہستہ ہوجاتی ہے؟ یہ ہے ون بلئن ڈالر کوئسچن۔ روشنی کی رفتار کیسے سلو ہوسکتی ہے؟

روشنی کے ذرّات تیز یا سلو اِس طریقے پر ہوتے ہیں کہ روشنی اپنی فطری رفتار میں تو سلو نہیں ہوتی لیکن روشنی کے ذرّات کی وائبریشن بدل جاتی ہے۔ وہی وائبریشن جس کا ہم پلانکین لینتھ کے ساتھ اوپر ذکر کرآئے ہیں یعنی ایچ ضرب ایف۔ جب کوئی فوٹان بہت زیادہ تیزی کے ساتھ اور جلدی جلدی وائبریٹ ہورہاہو تو ہم کہتے ہیں کہ اس میں توانائی زیادہ ہے۔ اسی طرح کوئی فوٹان اگر نسبتاً سستی کے ساتھ وائبریٹ ہورہاہو تو ہم کہتے ہیں کہ اس میں کم توانائی ہے۔

فرض کریں ایک فوٹان آرہا تھا۔ اس کی وائبریشن ’’اتنی اتنی‘‘ تھی۔ آگے ایک الیکٹران اس کے راستے میں آگیا۔ اور وہ فوٹان اُس الیکٹران کے ساتھ ٹکرا گیا۔ اب کیا ہوگا کہ فوٹان اپنی توانائی الیکٹران میں منتقل کردیگا اور خود آہستہ ہوجائیگا۔ آہستہ ہوجائیگا سے مراد اس کی رفتار نہیں بلکہ اس کی فقط وائبریشن بدل جائیگی۔ پہلے وہ چھوٹی ویو لینتھ کا ایک تیز فوٹان تھا اور اس لیے اس کا رنگ نیلا تھا لیکن اب وہ لمبی ویو لینتھ کا ایک سست فوٹان بن جائیگا اور اس کا رنگ لال ہوجائیگا۔ آپ کو یاد ہوگا ہم نے اوپر بلیئرڈ کی گیندوں کی مثال دیتے وقت ایک ایسے منظر پر بھی غور کیا تھا کہ بعض اوقات بلیئرڈ کی کوئی گیند پوری طاقت سے کسی اور گیند سے ٹکراتی ہے اور اپنا تمام تر مومینٹم اس میں منتقل کرکے خود وہیں کی وہیں کھڑی ہوجاتی۔ ساکت و جامد ۔ جبکہ جس گیند کے ساتھ وہ ٹکرائی ہے وہ گیند اتنے ہی مومینٹم کے ساتھ آگے کو چل پڑتی ہے۔ بچپن میں ہم جب کانچ کی گولیاں (کنچے، بنٹے) کھیلتے تھے تو یہ منظر اکثر دیکھنے کو ملتا تھا کہ ایک کنچہ دوسرے سے ٹکرایا اور خود وہیں کا وہیں جم گیا۔ ایسا منظر فوٹانز اور الیکٹران کے معاملے میں پیش آئے تو کیا ہوگا؟ جب کوئی فوٹان اپنا کُل کا کُل مومینٹم کسی الیکٹران میں منتقل کردیگا تو کیا وہ بھی بلیئرڈ کی گیند یا کنچے کی طرح ایک ہی جگہ جم کر کھڑا ہوجائیگا؟ نہیں! فوٹان کبھی رُک نہیں سکتا کیونکہ وہ روشنی کی رفتار سے چل رہاہے۔ چنانچہ جب وہ اپنا تمام تر مومینٹم کسی اور ذرّے کو دے دیگا تو پھر اس کے پاس کچھ بچے گاہی نہیں اور وہ فنا ہوجائیگا۔ اُس کا وجود ہی سرےسے ختم ہوجائیگا کیونکہ وہ ایک غیر مادی ذرّہ یا ذرّہ بغیرِ مادہ ہے۔

مختلف قسم کی الیکٹرومیگانیٹک ویوز میں توانائی کی مقداریں اسی بنیاد پر مختلف ہیں۔ الٹراوائیلٹ تیز توانائی کی شعاع ہے اور انفراریڈ کمزور توانائی کی۔

آئن سٹائن کو جس کارنامے کی بنیاد پر نوبل پرائز ملا وہ نہ تو سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی ہے اور نہ ہی جنرل تھیوری آف ریلیٹوٹی ۔ بلکہ آئن سٹائن کو ایک تیسری دریافت کی بنا پر نوبل پرائز دیا گیا تھا اور وہ ہے فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ۔

یعنی جب کوئی فوٹان کسی سطح سے ٹکراتاہے تو اپنی توانائی کی وجہ سے اس سطح پر موجود مادے کے الیکٹرانوں پر اثرانداز ہوتاہے۔ یعنی اگر وہ تیز ترین توانائی والا فوٹان ہے یعنی الٹراوائیلٹ شعاع کا فوٹان ہے تو پھر جس سطح کے ساتھ وہ ٹکرایا ہے اس سطح سے ایک الیکٹران نکل کر باہر فضا میں چلا جائے گا۔

چنانچہ اس دریافت کے بعد بے پناہ سائنسی ترقی ہوئی اور مختلف دھاتوں پر مختلف قسم کی شعاعیں مار مار کر الیکٹرانز کی مختلف مقداریں بطور توانائی حاصل کی جانے لگیں۔ سولر انرجی والا سولر پینل بھی ایک لحاظ سے اِسی عمل کی مثال ہے۔

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین